دور جدید میں اپنی اہمیت کیوں کھوبیٹھا؟
مشرق میں باپ ایک ہستی کا نام ہے جو کولہو کے بیل کی طرح ساری عمر کماتا ہے مگر اس کے ہاتھ نہ اپنے بچوں کا پیار لگتا ہے نہ آرام و سکون۔ماں اور بچوں کی پارٹی ایک طرف اور اکیلا باپ ایک طرف۔گھر میں باپ کی ضرورت کمانے اور بیرون خانہ کاموں کو کرنے کے علاوہ اس وقت پڑتی ہے جب ماں کو بچے ہاتھ نہ آنے کی صورت میں انہیں ڈرانا دھمکانا مقصود ہوتا ہے‘ تب والد محترم کی چنگیزی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ گویا طاقت کے ضروری و غیر ضروری دونوں طرح کے استعمال کے لئے ایک باپ کی اہمیت ہر گھر میں مسلمہ ہے جو ماں بچوں پر کنٹرول رکھنے کے لئے اکثر کرواتی ہیں۔
خونی رشتوں کی بدلتی نوعیت
ایک وقت تھا جب گھر میں ماں باپ کی حیثیت نمایاں حاصل رکھتی تھی‘ والد کا ایک حکم زبر وزیر بنانے کے لئے کافی ہوتا تھا۔تب زندگی اور وقت میں اتنی تیزی نہ تھی‘ معاشرے کے گورکھ دندے کم تھے‘بچوں ااور ماں باپ کے درمیان ہلکا سا انسیت کا اظہار بھی ہوتو ان میں پیار اور بڑھ جاتا۔فی زمانہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ہماری بے لگام ہوتی خواہشات نے ان خون کے رشتوں کی نوعیت بھی بدل کر رکھ دی ہے۔ہمارا دن بدن تغیر لینا مشینی اسٹائل کا طرز زندگی ہمیں ان معاشرتی خامیوں اور کمزوریوں کی جانب لیتا جا رہا ہے جن پر آج اہل مغرب پریشان ہیں۔ہماری خاندانی اقدار میں مغربی اثرات کی ملمع کاری ہمیں اسی نوعیت کے مسائل میں گھیر رہی ہے جس طرح کے مسائل اہل مغرب کو درپیش ہیں۔خاندان کے اس مثالی ادارے کو بچانے کے لئے وہاں فادرز ڈے منانے کے ساتھ ساتھ کئی تحریکیں سرگرم ہیں اور بدقسمتی سے ہمارے یہاں بھی اب تقریبا ہر گھر میں باپ کا فقط اتنا کردار رہ گیا ہے کہ وہ کما کر لائے‘ گھر آئے‘ کھا پی کر سوجائے اور صبح سویرے پھر اسی چکر کا حصہ بن جائے۔
والد کا مشفقانہ رویہ
یوں تو ماں اور باپ‘ دونوں ہی اولاد کی تربیت اور پرورش میں لازم و ملزوم ہیں لیکن ایک باپ بچوں کی تربیت پر کتنا اثر ڈالتا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ماں اور باپ دونوں کے جذبہ محبت کا اظہار یکسر مختلف ہوتا ہے۔بچے کی صحت مند پرورش کے لئے ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی بے حد ضروری ہے۔ایک باپ کا بچے کے ساتھ کھیلنے کا طریقہ ماں کے طریقے سے مختلف ہوتا ہے۔باپ بچے کے ساتھ باکسنگ کرے گا‘ اس کو دوڑنا سکھائے گا‘ شور مچا کر‘ دھماکہ چوکڑی کے ساتھ‘ دوڑ بھاگ کر کھلائے گا جبکہ ماں کھلونے لا کر اسے ایک طرف کھیلنے کو بٹھا دے گی اور خطرناک چیزیں اس کی پہنچ سے دور رکھے گی۔
مشکل حالات میںحوصلہ افزائی
ایک تحقیق کے مطابق ستر فیصد سے زائد والد اپنے بچوں کے ساتھ جسمانی حرکت یا اچھل کود والے کھیل کھیلتے ہیں اور صرف چار فیصد مائیںاپنے بچوں کو باپ کی طرح کھلا پاتی ہیں جبکہ اس طرح کے کھیل کی حوصلہ افزائی بہت کم مائیں کرتی ہیں۔ایک محقق کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس طرح ایک بچہ یہ سیکھتا ہے کہ اگر کبھی اس کی کسی سے لڑائی ہو جائےتو اسے اپنا بچائو کیسے کرنا ہے۔اچھلنے کودنے سے اس کے دل سے ڈر نکل جاتا ہے اور وہ ایک اچھا انسان بن جاتا ہے جو وقت پڑنے پر خطرات سے ڈر کر نہ بھاگے۔آس پاس سے بچہ اگر کوئی غلط لفظ سیکھ لے اور غصے میں آکر کھیل کے دوران جب وہ اس کا استعمال کرے تب اسے اس کا باپ سمجھائے کہ اس نے کیا غلط کہا تو وہ پھر آئندہ ایسی بات منہ سے نہیں نکالے گا۔ہر بچے میں غصہ پایا جاتا ہے‘ اس غصے کو کنٹرول کرنا‘ اپنی ذات پر قابو پانا‘ یہ سب کچھ وہ باپ سے سیکھتا ہے۔
ایک پارک کا نظارہ کریں۔کون ہو گا جو بچوں کو جوش دلا کر کہہ رہا ہو گا کہ اونچی چھلانگ لگائو یا سوئمنگ پول میں اسے تیز تیز سوئمنگ پر اکسا رہا ہو گا؟یقیناً وہ باپ ہو گا جبکہ دوسری طرف ماں ہو گی جو سنبھل سنبھل کے کھیلنے کا حکم دے رہی ہو گی۔دراصل باپ بچوں میں چانس لینے اور خطرات سے نہ ڈرنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے،ماں محتاط رہنے کی بات کرتی ہے۔دونوں مل کر جب بچے کو اپنے اپنے انداز میں سمجھا رہے ہوتے ہیں تو بچہ آزادانہ فیصلے کرنے اور خود پر اعتماد کے قابل ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کی شخصیت میں توازن آتا۔
والدین میں جہاں درج بالا بتائی گئی کئی باتوں کا فرق ہے وہیں ان کا طریقہ ابلاغ بھی بچوں کے ساتھ الگ الگ ہوتا ہے۔ایک ماں بچوں سے بات کرتے ہوئے ان کی ذہنی سطح پر آکر تفصیلی پیرائے میں سمجھا کر بات کرتی ہے اور ایک باپ براہ راست ‘ مختصر اور نقطہ نظر پر گفتگو کرتا ہے۔اس کی گفتگو میں بچے کی موجودگی کے باعث کوئی فرق نہیں پڑتا‘بچے آسانی سے ہر بات ماں کو کہہ دیتے ہیں کیونکہ وہ خود اپنی گفتگو سے انہیں اپنا ہم خیال ثابت کر رہی ہوتی ہے مگر باپ بچوں کا ہم خیال ہونے کے بجائے انہیں اپنی ذہنی سطح پر لانے والے انداز میں بات کرتا ہے۔جو بچے باپ کے ساتھ زیادہ بات چیت کرتے ہیں ان کا ذخیرہ الفاظ‘ زبان کا تلفظ ہو بہو والد کی طرح بڑا پن لئے ہوئے ہوتا ہے۔وہ بالکل اپنے باپ کی طرح سوچ سمجھ کر ‘ مختصر لفظوں میں مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔باپ کا یہ انداز انہیں سکھاتا ہے کہ ان کو اپنے استاد سے کیسے بات کرنی چاہیے‘اپنے سنئیر سے کس طرح بولنا چاہیے‘ دوسروں کے ساتھ گفتگو میں کن آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے جو زمانہ بلوغت میں انہیں سماجی بول چال میں مدد دیتا ہے۔باپ گھر کی ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ اسے اپنا، اپنی بیوی، اپنے بچوں‘ پورے گھر کا خیال رکھنا اور بچوں کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے اور ہر قسم کی مدد کرکے انھیں زندگی کے ہر میدان میں اُتارتا ہے۔ اسے اپنے کاروبار، اپنے پیشے اور اپنی ملازمت کے ساتھ جتنی ذمہ داریاں لگی ہوئی ہوتی ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ ذمہ داریاں بچوں کی زندگی سے جڑی ہوتی ہیں۔ چنانچہ باپ کیلئے گھر اور باہر کی زندگی کے علاوہ بچوں کی شخصیت کی تعمیر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ بچوں کو پال پوس کر بڑا کرنا اور انھیں زندگی کے حالات اور واقعات کا سامنا کرنے کے قابل بنانا باپ کیلئے بڑے ہی صبر و برداشت کا کام ہے۔باپ روئے زمین پر ایک ایسی ہستی ہے جس کا کوئی بدل نہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں